01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 6
آں چست
از روز میری
قسط نمبر6
پر رونق شام' مہمانوں کی گہما گہمی' مستطیل لان جسکے چار جانب رنگا رنگ بتیوں اور پھولوں سے آرائش کی گئی تھی۔ مہمانوں کے لیئے چیئر ٹیبل لگائے گئے تھے' ہر ٹیبل کے گرد شمار میں چار چیئرز تھیں۔
مستطیل سٹیج جسکی بیک پھولوں سے آراستہ کی گئی تھی اور جدید طرز کا ایک صوفہ سیٹ رکھا تھا جس پہ اس وقت دلہن کے ہمراہ دلہا موجود تھا۔ مہمانوں کے ساتھ میزبان خاص کر دلہن شدت سے احد کے منتظر تھے۔
"اس وقت ہم سیٹھ نثار صاحب کے گھر کے باہر موجود ہیں جہاں انکی اکلوتی بیٹی رانیہ نثار کی شادی کی تقریب زور و شور سے جاری ہے۔ اس تقریب کا خاص پہلو یہ ہے کہ اس تقریب کو چار چاند لگانے آج شہر کے سب سے مشہور گلوکار مسٹر احد سمعان یہاں تشریف لائیں گے جسکی بنا پہ فینزز کا ہجوم بہت زیادہ ہے"۔
شہر کے نیوز چینلز کے مقرر کردہ نمائندوں نے کوریج کرنا شروع کی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
راہداری پہ سرخ کارپٹ بچھایا گیا تھا اور دونوں اطراف پھولوں کی زیبائش کی گئی تھی۔ بلیک چمچماتی مرسیڈیز راہداری کے اختتام پہ آ رکی جسکے رکتے ہی سیکیورٹی گارڈ نے آگے بڑھتے دروازہ کھولا' سیاہ چمکتے جوتوں کو کارپٹ پہ جماتے اسنے سب پہ اپنی شان نمایاں کی۔ دوسری جانب دروازہ کھلتے ہی مشائم کار سے نکلتی احد کے قریب آ کھڑی ہوئی۔
"احد سر آ گئے لیٹس گو"۔ نیوز چینل کے نمائندے کی نظر احد پر جونہی پڑی وہ کیمرہ مین کی ہمراہی میں احد کی جانب دوڑی۔
"ویلکم مسٹر احد"۔ نثار صاحب نے احد کے قریب آتے اس کا خیر مقدم کیا۔
"شکریہ سیٹھ صاحب"۔ احد نے خوشدلی سے کہا۔
"انکا تعارف؟"۔ نثار صاحب نے احد کے بعد مشائم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"مائی فیانسی"۔ مشائم کی جانب دیکھتے وہ مسکرا دیا۔
"احد سر سیٹھ نثار صاحب کے انویٹیشن کو ایکسیپٹ کرتے آپ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کے لیئے آپکے فینز کس اہمیت کے حامل ہیں۔ رانیہ نثار کے علاوہ آپکے بہت سے فینز یہاں موجود ہیں جو آپ سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں' آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟"۔ لیڈی نمائندے نے سوال کرتے مائیک احد کی طرف بڑھایا۔
"پہلے تو میں نثار صاحب کا بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے عزت بخشی۔ ایک راکسٹار کیلیئے اس سے بڑی بات نہیں ہو سکتی کہ دنیا میں اسکی موسیقی' اسکی آواز' اسکی لگن اور ہنر کو سراہنے والے لوگ اکثریت میں موجود ہیں۔ کنسرٹ سے لے کر شو تک ایون کے البم کے ریلیز ہونے تک یا اسکے بعد مجھے جتنا بھی پروٹوکول دیا جاتا ہے' یہ پروٹوکول میرا نہیں میرے فینز کا ہے"۔
احد کی آمد پہ سیکیورٹی کے انتظامات سخت کیئے گئے تھے' اسکی نثار صاحب کے گھر میں آمد اسکے فینز کیلیئے باعث مسرت تھی جو اس وقت اسکے گرد ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔
"احد ۔۔۔ احد ۔۔۔ احد"۔
نسوانی اور مردانہ آوازیں یکسر ہوا میں رقصاں تھیں۔
"سر اپنے فینز کیلیئے کوئی سانگ جو آپ انہیں ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتے ہیں؟"۔
نمائیندے نے مزید کہا۔
"تینوں لکھاں تو چھپا کے رکھاں
اکھاں تے سجا کے
تو اے میری وفا
رکھ اپنڑاں بنا کے
میں تیرے لئی آں' تیرے لئی آں یارا
نا پاویں کدی دوریاں
میں جینا ہاں تیرا اااااااا
میں جینا ہاں تیرا تو جینا ہے میرا
دس لینڑاں کی نخرا دکھا کے
دل دیاں گلاں
کراں گے نال نال بے کے
اکھ نال اکھ نوں ملا کے
دل دیاں گلاں"۔
احد نے گنگنانا شروع کیا جس پہ اطراف میں ہوٹنگ شروع ہوئی۔
"بہت شکریہ سر' سر آپکے فینز یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو آپکے ساتھ موجود ہیں' انکا آپکے ساتھ کیا رشتہ ہے؟"۔ نمائندے کے سوال پہ احد نے مشائم کو دیکھا' مشائم آزمودہ کاری سے احد کو تجسس بھرے انداز میں دل آویزی سے دیکھ رہی تھی۔
"مائی لائف' مائی فیانسی' بہت جلد ہماری شادی ہونے والی ہے"۔ مشائم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے احد نے دلربائی سے کہا۔
"فینز بہت پرامید ہیں سر' بہت ساری نیک خواہشات اور دعائیں آپ کیلیئے"۔ نمائندے نے کہا۔
"تھینکس الاٹ' ایکس کیوز می"۔ معذرت کرتے احد مشائم کے ہم قدم نثار صاحب کی ہمراہی میں لان کی اندرونی جانب بڑھنے لگا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
تقریب سے واپسی پہ احد کا سر درد سے بوجھل تھا۔ مشائم کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد احد حویلی پہنچا' کافی رات ہو چکی تھی۔ کار سے نکلتے احد نے کوٹ پشت پہ ڈالا اور حویلی کی اندرونی جانب بڑھنے لگا۔ حویلی سنسان پڑی تھی' سب سو چکے تھے سوائے اس خادمہ کے جو کچن کا بقیہ کام سمیٹنے میں لگی تھی۔ احد تھکے ہارے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتا روم میں پہنچا' گلاب کی بھینی خوشبو نے اسکا استقبال کیا۔ احد نے چونک کر روم کا جائزہ لیا لیکن اسے کوئی گلاب نظر نا آیا۔
سر میں درد کی کثرت کے سبب وہ بیڈ پہ جونہی بیٹھا' بدن کو ڈھیلا چھوڑتے بیڈ پہ لیٹ گیا تھا۔ چند ہی لمحوں میں اسے یوں لگا جیسے کوئی اسکا سر دھیرے سے دبا رہا ہو' احد کو راحت محسوس ہونے لگی تھی۔ چند منٹوں کے توقف سے اسے درد میں خاصہ آرام ملا' بلا وساطت اسے یوں لگا جیسے کوئی اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہا ہے۔
"تھینک یو سو مچ"۔ سکون کی چادر لپیٹے احد بڑبڑایا۔
احد کے بالوں میں انگلیاں مستقل ہولے سے چلتپھرت کر رہیں تھیں۔ جونہی اسنے کروٹ لیتے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی' سفید لباس میں ملبوس لڑکی کا عکس اسکی آنکھوں میں دھندلا سا سمایا۔
"ارے مشی تم' یہاں؟"۔
احد کے منہ سے مشائم کا نام سنتے وہ لڑکی عتاب میں آئی تھی' احد کا وجود اگلے ہی لمحے سامنے دیوار سے پٹختے فرش پہ گرا تھا جس سے اسکی آنکھیں کھلیں اور وہ بوکھلا کر سیدھا ہوا۔ اسکے حواسوں پہ بحال ہوتے ہی وہ لڑکی رفو چکر ہوئی۔
اب احد کے روم میں احد' خوف و ہراس اور خاموشی کے کوئی موجود نا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ہاں میں نے دیکھا تھا کل لائیو' بڑی ہمت آ گئی ہے جگر بھئی ماننا پڑے گا ویسے تم نے فینز کا ہارٹ بریک کر دیا۔ بےچاری کڑیاں' مجھے تو ترس آ رہا ہے ان پہ"۔
کان کے ساتھ ائیر پاڈ لگائے وہ مال سے نکل کر پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ رہا تھا۔
"سب سمجھ آ رہا ہے جگر چھپانے کی ضرورت نہیں' چل ٹھیک ہے تو کام کر لے پھر بات ہو گی۔ بائے"۔ پینٹ کی پاکٹ سے فون نکالتے اسنے کال ڈسکنیکٹ کی ہی تھی کہ اسکے دائیں شانے پہ کسی نے ہا تھ رکھا جس پہ وہ سرعت سے پلٹا۔
"کیا ہوا حمزہ؟ چونک کیوں گئے؟ میں ہوں قمیل"۔ مقابل کھڑے انسان نے فورا سے کہا۔
"نہیں' وہ بس' کچھ نہیں' کافی عرصے بعد ملاقات ہو رہی ہے نا تو اس وجہ سے' نن ادر دین دس"۔ حمزہ نے چہرے کے نقوش ڈھیلے کیئے۔
"ہاں کالج ٹائم کے بعد اب ملاقات ہو رہی ہے ۔۔۔ تم لوگوں نے بھی تو رابطہ نہیں کیا' احد کی سناو؟ بات ہوتی ہے تمھاری؟"۔
"احد سے میری بات ان فیکٹ ملاقات بھی ہوتی ہے۔ اس شہر کا سب سے فیمس راکسٹار ہے سنا تو ہوگا؟"۔ حمزہ نے مزید کہا۔
"ہاں دیکھا میں نے اسے کل ٹی وی پہ اسکے ساتھ اسکی منگیتر بھی تھی۔ وہی ٹھیک رہ گیا جو پڑھتا نہیں تھا پھر بھی اتنا فیمس ہو گیا اور ایک ہم ہیں جو پڑھ لکھ کے بھی خالی ہاتھ ہیں"۔ قمیل طنزا ہنس دیا۔
حمزہ کو قمیل کی بات شاق گزری تھی جس سے اس کے اندر غصے کا جولا پھٹا۔
"ہر اک کا اپنا شوق ہوتا ہے قمیل اور ویسے بھی موسیقی ہر انسان کے بس کا روگ نہیں' شہرت ہر کسی کے قدم نہیں چومتی نا ہی ہر کسی کی آواز اتنی اچھی ہو سکتی ہے کہ وہ سنگر بنے۔ اینی وے مجھے دیر ہو رہی ہے پھر ملاقات ہوگی' بائے"۔ سرد مہری سے جواب دیتے حمزہ کار میں بیٹھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں حمزہ کار دوڑاتا سڑک کی جانب لے گیا تھا جبکہ قمیل اسکی کار کو حقارت سے گھورتے مال میں چلا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ارے مشی تم یہاں"۔ جب وہ روم کی دہلیز پہ پہنچا تو مشائم کو اپنے روم میں پہلے سے موجود دیکھ متحیر رہ گیا۔
احد کی صوت پہ مشائم جو بیڈ پہ بیٹھی فون پہ گیم کھیلنے میں منہمک تھی' اسکی طرف متوجہ ہوئی۔
"ہاں وہ تمھاری نانو سے ملنے آئی تھی"۔ بولتے ہی وہ بیڈ سے کھڑی ہوئی۔
"بھئی اک نانو ہی لکی ہیں جن سے ملنے کا ارادہ کیا اور تم یہاں تک چلی آئی ورنہ ہم جیسے غریبوں کو تو لوگ پوچھتے ہی نہیں"۔ بناوٹی سنجیدگی میں بولتے وہ مشائم کے قریب آیا۔
"تم اور غریب' ویری فنی"۔ مشائم نے مذاق اڑاتے کہا۔
"کیوں؟ میں غریب نہیں ہو سکتا؟"۔ احد اسکے مزید قریب ہوا۔
"کبھی محلوں میں رہنے والے اور مرسیڈیز میں گھومنے والے سوٹڈ بوٹڈ لوگ' غریب ہوئے ہیں؟"۔ مشائم نے احد کی آنکھوں میں جھانکا جس پہ اسنے دھیرے سے "ہاں" میں سر ہلا دیا۔
" کیسے؟"۔ احد کی چاہت کی لو خود پہ محسوس کرتے اسنے دلچسپی سے کہا۔
"پیار کے بھوکے لوگ محبت کی نگری میں غریب ہی کہلاتے ہیں"۔ احد شرارت سے مسکرا دیا۔
"مطلب کہ کچھ بھی' تم سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے احد"۔ احد کے سر پہ ہولے سے چپت لگاتے مشائم ہنس دی۔
اسی دوران کھڑکی کے پٹ زور سے بند ہوئے۔
"یہ کیسے بند ہوئی؟"۔ اسکے اوسان جاتے رہے' احد جو سب کچھ جانتا تھا، نے بمشکل لعب نگلا۔
"ہوا سے ہوا ہو گا' ت۔ تم پریشان نا ہو بلکہ تم ایسا کرو ہال میں میرا ویٹ کرو میں کار کی چابی لے کر آتا ہوں"۔ احد نے فورا سے کہا۔
"کار کی چابی مگر کیوں؟"۔ مشائم حیرت سے اسے تاکنے لگی۔
"کہیں جاتے ہیں نا گھومنے"۔ احد کو یہی صحیح لگا تھا۔
"اوکے' جلدی آنا"۔ مشائم بولتے ہی روم سے نکل گئی تب احد نے آہ بھری۔
"آ"۔ مشائم کے حلق سے نکلی فلک بوس چیخ نے احد کے چھکے چھڑا دیئے جس پہ وہ بوکھلاہٹ میں روم سے باہر دوڑا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆